جامعۃ الرشید کراچی کےکالم نگاری کورس میں تیسری پوزیشن کی حامل تحریر ،صاحبِ مضمون نے درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد تخصص فی الافتا ء کا کورس مکمل کیا ۔ ایک مدت تک دارالافتا کی ذمہ داری سنبھالی ۔بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن سے فاضل اردو کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے عربی زبان کے کورسز مکمل کر چکے ہیں ۔ختم ِ نبوت کے کورس میں ملکی سطح پر پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ جامعۃ الرشید سے مختلف کورسز امتیازی نمبروں سے مکمل کیے ۔مقابلے کے امتحانوں میں شرکت کی ۔ ایم ۔ اے پولیٹیکل سائنس کا امتحان پاس کیا ، ایم ۔فِل (عریبک لینگوئج اینڈ لٹریچر ) میں یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی ۔آپ کا مقالہ‘‘ عربی زبان و ادب کے فروغ میں علماء بہاولپور کی خدمات ’’ کے عنوان سے تھا ۔ بعد ازاں پی ۔ ایچ ۔ ڈی (عربی زبان و ادب ) کا ایک سالہ کورس ورک امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد آج کل پی ۔ ایچ۔ ڈی ریسرچ اسکالر ہیں ۔ اس میں آپ کے مقالے کا موضوع ‘‘ مزاحمتی شاعری میں پاکستانی اور عراقی شعراء کا تقابلی جائزہ ’’ ہے ۔چند گراں قدر کتب کے مولف ، کالم نگار اور کوالیفائیڈ ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں ۔ایک عرصے سے دینی مدرسہ میں اسلامی علوم کی تدریس سے منسلک ہیں ۔ .................................................................................................................

					میرا وژن

انسان کو منزل مقصود کا پتہ ہو تو اس تک پہنچنا آسان ہوتا ہے ۔میں نے بھی اپنا مقصد متعین کیا اور اس پر چل پڑا ۔اب میری منزل قریب آتی محسوس ہوتی ہے ۔ وطنِ عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے ۔ سب سے پہلی چیز جو کسی انسان کو خیانت سے باز رکھ سکتی ہے ، وہ مذہب ہے ۔خوفِ خدا اورآخرت کے دن کی پیشی کا یقین ہی انسان کو بہت سی برائیوں سے روک دیتا ہے ۔ قوانین بنا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔جب تک انسان کے اندر سے تبدیلی نہ آئے ۔لہذا پاکستان میں کرپشن کو ختم کرنا ہے تو افراد کے اندر سے تبدیلی لانی ہو گی ۔ اگر بیوروکریسی چاہے تو کرپشن کم ہو سکتی ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی ہی معاشرے میں انقلاب لے آتی ہے۔میں نے مشاہدہ کیا کہ اس شعبے میں دینی طبقہ کی نمائندگی مفقود ہے ۔حالانکہ یہی وہ طبقہ ہے جو اگر اس شعبہ میں ہو تو کرپشن کا ناسور جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے ۔ بیوروکریسی تک پہنچنا کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں ۔ اس کے لیے مقابلے کا امتحان ( سی ۔ ایس ۔ ایس ) پاس کرنے کے ساتھ مطلوبہ قابلیت کا ہونا بھی ضروری ہے ۔جتنی استعداد دینی مدارس کے طلبا اور علما میں ہوتی ہے ، اس کی مدد سے یہ امتحان پاس کرنا مشکل نہیں ۔ ضرورت صرف انگریزی زبان سیکھنے کی رہ جاتی ہے ۔اس میں بھی عربی زبان کی طرح مہارت حاصل کی جاسکتی ہے ۔اگر کمی ہے تو صرف راہ متعین کرنے کی ہے ۔اگر دینی علوم کے ساتھ عصری تعلیم کی تیاری بھی کرائی جائے۔درس نظامی کی تکمیل تک گریجویشن کی تعلیم بھی فراہم کی جائے ، تو اس طرح دینی تعلیم سے فراغت کے بعد مقابلے کے امتحان میں شرکت کی جا سکتی ہے ۔مدارس کے اسباق کی طرز پر اس میں بھی محنت کی جائے تو آسانی سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ یہ بات ایک مفروضے کی حد تک نہیں بلکہ مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہے ۔ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ یہ سب کچھ ممکن ہے ۔اس وژن کو میں نے متعین کیا ۔ دینی مدارس کے طلبا کے لیے اس کی کوشش شروع کی ۔ خوش قسمتی سے مجھے رفیقِ کار بھی میرے اپنے وژن کے میسر آ گئے ۔ ہم نے مل کر ایک ادارے مدرسۃ الانور میں اس وژن کے حصول کی کوشش شروع کر دی ۔ایک نصاب اس انداز سے ترتیب دیا کہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم بھی بہترین استعداد کے ساتھ حاصل ہو جائیں ۔صرف پانچ سال کے ہی مختصر سے عرصے میں ہم کامیابی کے ساتھ ہمکنار ہو گئے ۔ ہم نے درجہ ثانویہ عامہ تک کے تمام طلبا کو میٹرک سائنس گروپ کے امتحان میں بھی شرکت کرائی ۔ اس کے ساتھ ہی عالمی زبان انگریزی اور علمی زبان عربی میں مکمل مہارت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔طلبا نے ثانویہ عامہ کا امتحان عربی میڈیم اور میٹرک سائنس کا امتحان انگلش میڈیم میں دیا۔دونوں امتحانوں میں اسّی فیصد سے زائد نمبر حاصل کیے ۔ آج میرا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کو ہے ۔ہمارا پہلا بَیج انٹرمیڈیٹ کے کامرس گروپ کے ساتھ درجہ ثالثہ میں زیرِ تعلیم ہے ۔بہت جلد ہی گریجویشن کے بعد سی ۔ ایس ۔ایس کے امتحان میں شرکت کرنے کو تیار ہے ۔اس میں کامیاب ہو کر بیوروکریسی کا حصہ بن جائے گا ۔ اس طرح میں دھیمی رفتار کے باوجود اپنے وژن کو حاصل ہوتا دیکھ سکوں گا ۔ اب ہمارے ملک میں دینی طبقہ کے صاحبِ اختیار ہونے کی وجہ سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا ۔اسلام پسند طبقے کا استحصال اب اتنا آسان نہ ہو گا ۔جبر و استبداد اور ناانصافی ختم ہو جائے گی ۔ ہمارا معاشرہ حقیقی اسلامی معاشرہ بن جائے گا ۔اگر میرے وژن کو دینی حلقوں کے مقتدر افراد بھی اپنا وژن بنا لیں تو مقصد کا حصول تیز رفتاری سے حاصل ہو سکتا ہے ۔

										ڈاکٹر منور حسین عاجز