حضرت مولانا محمد امیرالدین سیّدی ھاشمی جلالہ آبادی دامت برکاتہم و فیوضہم رحمتہ اللہ علیہ برصغیر پاک وہند کے ایک عجب نڈر ، بیباک ، اور دبنگ عالم ِ دین تھے - آپ کے جدِ امجد جناب ِ علی عبداللہ سیدی ھاشمی 1799 میں سلطان ٹیپو کی مدد کو آنیوالے عراقی مجاہدین کے ہمراہ عراق سے ہندوستان آئے اور میسور کی آخری جنگ میں عربوں کی حربی روایات کے شایانِ شان انگریزوں کے خلاف ثابت قدمی و جوانمردی سے جمے رہے ـ مگر افسوس ! سلطان کے ہی دربار میں وزیر کے عہدے پر فائز ایک ننگ دین ، ننگ وطن شخص " میر صادق " نے سلطنتِ برطانیہ کا ساتھ دیتے ہوئے ٹیپو سلطان سے غداری کی ، جس کے نتیجے میں سلطان اس جنگ میں انگریزی فوج کے ہاتھوں شہید ہو گئے - سلطان کی شہادت کے بعد غازی عراقی مجاہدین میں سے کچھ نے وطن واپسی کی راہ اختیار کی تو کچھ نے ہندوستان کو ہی اپنا مسکن بنا لیا - غازی مجاہد جناب علی عبداللہ سیدی ھاشمی بھی ہندوستان میں ہی رُک گئے آپ فن سپاہ گری سے اچھی طرح واقف تھے مگر آپ نے ہندوستان میں تجارت کو بطور پیشہ اختیار کیا اور ہندوستان میں ہی شادی کرلی - اللہ ربّ العزت نے آپ کو حسین احمد کے نام سے ایک روشن دماغ فرزند عطا فرمایا جنہوں نے آپؒ کے کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے ہوئے دین کا علم سیکھا اور دین اسلام کی بے پناہ خدمت کی - مولانا حسین احمد کی شادی ایک کشمیری گھرانے میں ہوئی، آپؒ اپنے والد جناب علی عبداللہ سیدی ھاشمی ؒ کے انتقال کے بعد کشمیر میں ہی منتقل ہو گئے اور کاشتکاری کو بطور پیشہ اختیا ر کیا - مولانا حسین احمد کے اکلوتے بیٹے جناب چراغ دین کی شادی بھی کشمیری گھرانے میں ہوئی اور ان کی پشت سے 2 بیٹے مولانا محمد امیر الدین 1885 اور جناب کریم بخش 1887 میں پیدا ہوئے - مولانا محمد امیر الینؒ لڑکپن سے ہی اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پہ تھے آپ نے دنیاوی تعلیم کشمیر میں رہ کر حاصل کی جبکہ دینی تعلیم کےلیے ہجرت کر کے ہندوستانی پنجاب کے شہر " لُدھیانہ " آ گئے ـ آپ نے اپنی رہائش لدھیانہ کے محلّہ فیل گنج میں رکھی اور یہاں کی ایک معروف جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد دعوت و تبلیغ کا باقاعدہ آغاز کیا -آپؒ اپنے مختلف لب ولہجے اوردبنگ انداز خطابت کی بدولت جلد ہی ابھر کر سامنے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آپکی شہرت ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گئی - اسی دوران لدھیانہ کے ایک پٹھان تحصیلدار کی بیٹی سے آپکی شادی ہوئی مگر افسوس کہ آپکی زوجہ آپکو بہت جلد داغِ مفارقت دیکر خالقِ حقیقی سے جا مِلیں- انکے انتقال کے بعد آپ اپنے مریدین کے بھرپور اصرار پہ لدھیانہ کو چھوڑ کر ہندوستانی پنجاب کے سرحدی گاؤں " جلالہ آباد " آ گئے - یہاں آپ نے اپنے آباء کیطرح کاشتکاری کو ہی ذریعہ معاش بنایا اور آپکی دوسری شادی جلالہ آباد کے ایک بااثر خاندان میں ہوئی مگر وائے تقدیر کہ آپکی دوسری زوجہ بھی بہت جد انتقال فرما گئیں - اس خاندان کے بڑوں نے باہمی مشاورت کے بعد اپنی چھوٹی بیٹی بھی آپؒ کے نکاح میں دے دی جنہوں نے کم و بیش زندگی کی60 بہاریں آپکے ساتھ دیکھیں اور ان کے بطن مبارک سے اللہ ربّ العزت نے آپکو 8 بیٹے " شبیر احمد " - " خلیل احمد" - " رشید احمد" " جمیل احمد " " ریاض احمد " " وقار احمد " "شفیق احمد " " محمد احمد " اور 3 بیٹیاں " اُم کلثوم " - " امت القیوم " - اور " انیس بی بی " عطا فرمائیں - مولانا محمد امیر الدین رحمتہ اللہ علیہ نے جلالہ آباد میں سکونت کے بعد دعوت وتبلغ کا کام نہایت بھرپور انداز میں کیا - ہزاروں غیر مسلموں کو حلقہ بگوشِ اسلام کیا ، ہندوستان میں بہت سارے مدارس و مساجد کی بنیادیں رکھیں ، آپ کی شعلہ بیانی کا یہ عالم تھا کہ آپ جب مساجد کی تعمیر کےلیے فنڈ اکٹھا کرنے کی غرض سے وعظ فرماتے تو مسلمان تو درکنار ہندو اور سکھ عورتیں بھی کانوں سے بالیاں اور ہاتھوں سے چوڑیاں اتار کر آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا کرتی تھیں - برٹش سرکار کے ہاں بھی آپ کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا یہاں تک کہ جلالہ آباد کے متعلقہ ایک انگریز ڈپٹی نے اعلان کروا رکھا تھا کہ جو بھی چور اور ڈاکو مولانا صاحب کے پاس جا کر جرائم سے توبہ کرے گا اسے سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا - اگرچہ آپ پکےّ مسلم لیگی اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے مگر آپکی جُرات کا یہ عالم تھا کہ ایک بار آپ نے ایک انگریز ڈپٹی کے گلے سے " کولٹ " ریوالور بمعہ پیٹی اتار لیا اور اس سےکہا کہ اس کا لائسنس بھی بنوا کر مجھے بھجوا دینا ـ اس انگریز ڈپٹی کی اتنی جرات ہی نہ ہوئی کہ وہ آپ کے ہاتھوں سے ریوالور واپس لے سکے اور چاروناچار اس نے آپ کو لائسنس بھی بنوا کر بھجوا دیا - ہندوستان تقسیم ہوا تو آپ نے پاکستان ہی آنا پسند کیا - آپکے بیشمار مریدین میں سکھوں کی بھی اچھی خاصی تعداد شامل تھی اور وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ آپ ہندوستان چھوڑ کر جائیں مگر مولانا کے فیصلے کے آگے ان کی بھی ایک نہ چل سکی اور طوعاۤ و کرھاۤ انہی مسلح سکھوں کے ایک جتھے نے آپ کے قافلے کو اپنے حصار میں لے کر نمناک آنکھوں کیساتھ اٹاری بارڈر تک چھوڑا - مولانا محمد امیر الدین رحمتہ اللہ علیہ اپنے قافلے کیساتھ منڈی احمد آباد کے اسٹیشن سے بذریعہ ٹرین پاکستانی پنجاب کے قصباتی شہر حویلی لکھا پہنچے ـ یہاں آپ نے " پیلی کوٹھی " نامی ایک عمارت میں سامان سفر کھولا مگر بعد میں موجودہ منور شہید کالونی میں واقع ایک امیر ہندو عورت " نیناں " کی حویلی میں منتقل ہو گئے - پاکستانی انتظامیہ کیطرف سے آپ کو اس حویلی کے نواحی مکانات کی کنجیاں سونپ دی گئیں اور آپ نےہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے دیگر لوگوں کو بھی مکانات فراہم کیے ـ پاکستان آنے کے بعد بھی آپ نے بھرپور انداز میں دعوت وتبلغ کا کام کیا - امیرِ شریعت مولانا عطاللہ شاہ بخاری رح مولانا احمد علی لاہوری رح مولانا شبٗیر احمد عثمانی رح مولانا رشید احمد گنگوہی رح جناب مفتی محمود رح ( مولانا فضل الرحمن کے والد محترم ) آپکے نہایت قریبی رفقا میں شامل تھے - آپؒ تحریک ختم نبوت میں بھی پیش پیش رہے - مولانا محمد امیر الدین رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی بیشمار حیران کر دینے والے واقعات سے بھری پڑی ہے اور ان سب کا مفصل ذکر تو یہاں ممکن نہیں البتہ چند واقعات ضرور پیش خدمت کئیے دیتا ہوں ـ آپؒ شاید برصغیر کے علما میں سے واحد عالم دین تھے کہ جو گلے میں ریوالور لٹکا کر خطاب فرمایا کرتے تھے - آپؒ نے زندگی بھر کسی کی حیثیت ، جاہ و جلال اور مرتبے کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے ، ہمیشہ حق بات ببانگِ دہل کہی اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر کہی - ایک بارہندوستان میں ہی آپ ایک جلسے میں خطاب فرما رہے تھے مجمع میں مسلمانوں کے ساتھ ، ہندؤں اور سکھوں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود تھی اچانک آپ نے اس شہر کے ایک بڑی بڑی مونچھوں والے نہایت بااثر ہندو کو اس جلسے میں ایک اونچی جگہ پر بیٹھے دیکھا جہاں اس کے پاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم سے بلند ہو رہے تھے - آپ ؒ نے اس ہندو سے کہا کہ " دیکھو ! میں نے اپنی مقدس کتاب کھولی ہوئی ہے اور تمہارے پاؤں اس سے اونچے ہو رہے ہیں ، تم نیچے اتر کر مجمع میں آ جاؤ -" ہندو لالے کو یہ بات بہت ناگوار گزری اور اس نے نیچے آنے سے انکار کر دیا - آپؒ نے مجمع کو حکم دیا کہ " اس ہندو کو پکڑ کر میرے پاس لے آؤ " مجمع نے حکم کی تعمیل کی اور اسے پکڑ کر آپؒ کے پاس لے آئے آپؒ نے حجام کو بلوایا اور اس لالے کی مونچھیں اتروا کر اپنے پاس رکھ لیں اور تاکیدہ کی اب اگر تم نے ایسی حرکت کی تو تمہارا سر ساتھ لے کر جائیں گے - الا ان اولیا اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون یہ واقعی جسے اب ذکر کرنے جا رہا ہوں ریاست بہاولپور کی ایک معروف شخصیت سے منسوب ہے - ایک بار مولانا ، بہاولنگر کی ایک مسجد میں وعظ فرما رہے تھے اس مجمع میں وہ شخصیت بھی تشریف فرما تھی - مولانا کی تقریر ختم ہوئی تو وہ بہ نفسں نفیس خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ " مولانا ! میری خواہش ہے کہ آپ آج کا کھانا میرے ساتھ میرے محل میں کھائیں " مولانا کچھ دیر اس کے چہرے کیطرف دیکھتے رہے اور پھر گویا ہوئے کہ " جناب ! ہم علم دین رکھنے والے لوگ ہیں ، ہمیں حلال حرام کا بھی بہت خیال رکھنا ہوتا ہے " ان صاحب کو مولانا سے اس جواب کی توقع ہرگز نہ تھی انہوں نے شرمندہ سے لہجے میں عرض کیا " مولانا ! میں سمجھا نہیں کہ آپ کس حوالے سے حلال و حرام کا ذکر فرما رہے ہیں " مولانا نے فرمایا " دیکھئے جناب ! اسلام میں 4 شادیوں کی اجازت ہے اور آپ نے محلاّت میں آٹھ آٹھ بیگمات رکھی ہوئی ہیں تو پھر آپ کے گھر کا کھانا کیسے جائز ہو سکتا ہے "- وہ صاحب فراخدلی کیساتھ شرمسار ہوئے اور عرض کی کہ "مولانا میں انشاللہ ضرور اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا-" آپؒ ایک بار ملتان کے علاقے میں " شہادتِ حُسین رضی اللہ تعالی عنہ " کے موضوع پر تقریر فرما رہے تھے جس میں آپ نے شہادت کی عظمت اور شہید کے مراتب کا بھی مفصل ذکر کیا تو ایک اوڑ قبیلے کا نوجوان کھڑا ہوا اور اس نے اپنے ہی گلے پر چھری چلا دی - دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی - بات جنازے تک آئی تو کوئی مولوی اس وجہ سے اس کا جنازہ پڑھانے کےلیے تیار نہیں تھا کہ اس نے خود کشی کی ہے مگر مولانا محمد امیر الدینؒ آگے بڑھے اس نوجوان کا جنازہ پڑھایا اور مجمع سے فرمایا کہ اس نے اپنی دانست میں اللہ تعالی کے ہاں عزت اور شہادت کا مرتبہ پانے کےلیے یہ قدم اٹھایا ہے،خدا اس کی مغفرت فرمائے - بہاولنگر کے ایک گاؤں میں زیر تمیر مسجد پر جب چھت پڑنے کا وقت آیا تو انتظامیہ کے پاس پیسے ختم ہو گئے اور کافی عرصہ تک مطلوبہ رقم جمع نہ ہوسکی تو مسجد کی انتظامیہ نے مولانا کو اس صورت حال سے آگاہ کیا - آپؒ نے کہا کہ " گاؤں میں میرا جلسہ رکھو اور آس پاس کے دیہات میں بھی اعلان کروا دو-" چنانچہ گاؤں کے ایک کھلے میدان میں آپ کا جلسہ رکھ دیا گیا - مقررہ دن لوگ جوق در جوق آپ کی تقریر سننے کےلیے پہنچے - جب سب لوگ جلسہ گاہ میں اکٹھے ہو گئے تو اچانک گہرے کالے بادلوں نے آسمان کو گھیر لیا اور یوں لگتا تھا کہ اب مینہ برسا اب بارش ہوئی - لوگ بھی پریشان تھے کہ مولانا نے چہرہ مبارک آسمان کیطرف اٹھایا اور عرض کی کہ " اے ربِّ محمد تو خوب جانتا ہے کہ تیرا بندہ آج کس مقصد کےلیے یہاں آیا ہے اگر آج یہ بادل برس گئے تو اس کی ساری محنت اکارت جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اپنا فضل فرما ان بادلوں کو واپس بُلا لے اور بارش کو موخر کر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اور پھر اس بھرے مجمع میں موجود ہر شخص نے دیکھا کہ بادلوں کی چادر سب کی نگاہوں کے سامنے پھٹی اور آناۤ فاناۤ آسمان کی چاروں سمتوں میں اس طرح غائب ہو گئی کہ جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا - مولانا محمد امیر الدین سیدی ھاشمی جلالہ آبادی رحمتہ الل علیہ کی زندگی ایسے بے شمار واقعات کا مجموعہ ہے جو آپ سے محبت رکھنے والوں کے سینے میں آج بھی محفوظ ہیں آپؒ نے جس انداز میں دین اسلام کی خدمت کی اس کی تمثیل ڈھونڈ کے لانا کچھ آسان کام نہیں - پاکستان کی معروف جامعہ " جامعہ رشیدیہ " کی بہت ساری کتابوں میں آج بھی آپ کے حوالے موجود ہیں - سفر حیات کےآخری ایاّم میں مختصر علالت کے بعد 6 فروری 1976 کی ایک صبح نماز فجر کے آخری سلام کےبعد آپ ہمیشہ کےلیے خالق حقیقی سے جا مِلے آپؒ کے جنازے میں ملک کی معروف سیاسی و مذہبی شخصیات سمیت ہزاروں لوگوں کے اشک بار مجمع نے، تحمل سے مینہ برساتے آسمان تلے شرکت کی - اسلام کے اس خورشیدِ جہاں تاب کا بےگنبد مزار حویلی لکھا کے قدیم قبرستان " پرانی حویلی" میں گھنے پیڑوں کے سائے تلے موجود ہے - پروردگار مولانا محمد امیر الدین ؒ پر کروٹ کروٹ رحمتیں برسائے